Orhan

Add To collaction

اک ان چاہا رشتہ

اک ان چاہا رشتہ از سحر نور قسط نمبر5

اسجد: ارے۔۔ پیاری لڑکی۔۔ اسی لیے تو کہا ہے۔ خیر۔۔ٹھیک ہے میں سب بتاتا ہوں پر ایک شرط ہے۔۔ بولو مانو گی؟؟؟ شرط۔۔ کیسی شرط۔۔ زری ایک لمحے کیلئے خوفزدہ ہوگئی۔ اسجد: یہی کہ تم ہمیشہ میری سب سے اچھی دوست بن کر رہو گی۔ اور کبھی جاؤ گی نہیں۔۔ میری بیسٹ فرینڈ۔۔ آپکےکلاس کے لڑکےاپکے بیسٹ فرینڈ نہیں ہیں کیا؟؟ اسجد: میں انکی بات نہیں کر رہا۔۔ تم اپنی بتاؤ بنو گی؟ ٹھیک ہے۔ اب بتائیں مجھے سب۔۔ اسجد: میں ایک بروکن فیملی سے بیلونگ کرتا ہوں ۔ میری ماں اور بابا میں علیحدگی ہوچکی ہے۔ دونوں نے دوبارہ شادی کرلی۔ اور میں اب درمیان میں لٹکا ہوا ہوں۔ اسی لیے میں گھر نہیں جاتا یہاں ہاسٹل میں ہی رہتا ہوں۔ اوہ۔ہ۔ہ😞😞۔۔ زری کو کافی دکھ ہوا یہ جان کر۔۔ اسے ایسا محسوس ہوا وہ بھی اکیلا ہے اسی کی طرح۔ دوستوں کی موجودگی بھی نہ ہونے کے برابر۔ اسما اور ابیہا بس زیادہ تر خود میں ہی لگی رہتی تھی۔ جیسے اسے صرف مطلب کی حد تک رکھا ہوا تھا ساتھ۔ جب پڑھائی میں ضرورت پیش آتی تب وہ اسکے آگے پیچھے ہو جاتی اور عام حالات میں وہ اسکواتنا خاص جوڑ کر نہیں رکھا کرتی تھیں۔۔ اور گھر میں زویا کے تلخ رویے نے اسے اندر تک توڑ دیا تھا۔ اسے بھی ایسا دوست چاہیے تھا جو اسکی سنتا اس کو وقت دیتا بنا کسی غرض کے۔ اسجد: معلوم ہے۔ مجھے ایک لڑکی اچھی لگی یہاں یونیورسٹی میں۔۔ مگر اس نے میری محبت کو قبول نہیں کیا۔۔ میں بہت ٹوٹ گیا اسی لئے۔۔ اب تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ زری کو یہ بات جان کر اسجد سے مزید ہمدردی ہوتی گئی۔ دن بہ دن انکی دوستی بڑھتی گئی۔۔ مگر زری نے اسجد کو ہمیشہ ایک بڑے بھائی کی حثیت دی۔ اسجد کو بھی شاید احساس تھا کہ زری عام لڑکیوں کیطرح نہیں ہے۔ وہ بھی اپنی حدود سے واقف تھا۔ 🍁🍁🌹🌹🌹🍁🍁🍁🍁🌹🍁🍁 زری کا دوسرے سمیسٹر کا رزلٹ آیا تو وہ سیکنڈ نمبر پر تھی۔ پہلے سمیسٹر میں وہ ٹاپ پر تھی ۔ اس بار اسکا رزلٹ ڈاؤن ہوگیا تھا۔۔ زری کافی پریشان تھی کہ آخر اسکا رزلٹ ڈاؤن کیسے ہوگیا۔ وہ کافی وقت روتی رہی۔۔ اور پھر اس نے اسجد کو میسج کیا۔۔ اسجد کا فوراً ہی ریپلاے آیا۔ کچھ نہیں ہوتا۔۔ چند پوائنٹس کا فرق ہے بس دیکھنا اگلے سمیسٹر میں چٹکی میں نکل جائے گا۔ اسجد سے بات کر کے وہ کافی ہلکا محسوس کر رہی تھی۔ پھر اس نے ہمت کر کے پاپا کو بتایا۔۔ وحید صاحب نے کہا۔
چلو کوئی بات نہیں آگلی بار اور محنت کر لینا۔۔ زویا تو اسے جیسے تمسخر بھری نظروں سے دیکھتی رہی۔ 🍁🍁🍁🍁🍁🍁🌹🌹🍁🍁🍁 تیسرے سمیسٹر میں کلاس کا ایک ٹیچر کے کہنے پر واٹسآیپ گروپ بنایا گیا تاکہ ہر کوئی ایک دوسرے سے کمیونیکیٹ کر سکے۔ زرش اس سب سے دور رہنا چاہتی تھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اگر یہ سب گھر معلوم ہوا تو شاید اسکے لیے مسلہ پیدا ہوجائے گا کوئی بھی اسکی بات کو نہیں سمجھے گا اور زویا۔۔ وہ تو بات کا بتنگڑ بنا ڈالے گی۔ اسنے گروپ لیو کرنے کا سوچا ۔ زری تمہیں کس نے کہا ہے کہ تم گروپ لیو کرو اگر ایسا کرو گی تو ہوسکتا تمہیں کوئی ایمپورٹنٹ بات وقت پہ معلوم نہ ہوپاے۔ اسما نے زری کو ایک اور نئ بات کہہ ڈالی ۔ لیکن اسما۔۔ تمہیں معلوم ہے زویا۔۔ اگر اس نے کوئی ایشو بنا ڈالا تو میں کیا کروں گی ۔۔ زری کافی پریشان تھی۔ کچھ نہیں ہوتا۔۔ ٹینشن نہ لو۔۔ اسما کی اس بات سے زری کی ٹینشن تو کم نہیں ہوئی مگر دل کو تھوڑی تسلی ضرور ہوگئی تھی۔ کچھ دن سرکے کہ کلاس کے ایک لڑکے حاشر نے اسے میسج کیا کہ اس کے کچھ ٹاپک رہ رہے ہیں۔ کسی اور سے مانگنے کا فائدہ نہیں اسکے لیکچر بہت اچھے مینج ہوئے ہوتے ہیں تو وہ پلیز اسکی ہیلپ کردے۔
حاشر کافی سینسیبل لڑکا تھا اسکی کبھی اس سے براہراست بات تو نہیں ہوئی تھی مگر کلاس میں اسکا رویہ کافی اچھا تھا۔ زری نے سوچا کر دیتی ہوں واٹس آپ اس میں کوئی ایسی بڑی بات نہیں کسی کی مدد ہوجائے میرے لیے یہی کافی ہے۔ زری نے اسے سب لیکچر جو اسنے مانگے تھے وہ دے دیے۔ اب تو روزانہ کی بنیاد پر ان کی کلاس لیکچر اور کچھ جنرل ڈسکشن پر بات ہوتی رہتی تھی۔ مگر زری یونیورسٹی میں ابھی بھی سب سے فاصلے پر رہتی تھی۔ اسے حاشر سے کونٹیکٹ کیے ایک ہفتہ ہونے کو تھا۔ زری ہر روز چیٹ ریموو کر دیتی۔ مگر ایک دن۔۔۔ 🌹🍁🍁🌹🌹🌹🍁🌹🍁🍁🍁🌹 اس دن۔۔ جب وہ میسج ریموو کرنا بھول گئی تھی۔۔ تو۔۔ رات میں زویا نے اسکا موبائل لیا۔۔ اور کچھ دیر بعد واپس کردیا۔۔ صبح جب زری یونیورسٹی سے گھر آئ تو زویا مسلسل اسے عجیب عجیب نظروں سے دیکھتی رہی۔ رات میں جب وہ اپنے روم میں آئی تو زویا نے اسے مخاطب کیا۔ آجکل کیا مصروفیات ہیں تمھاری یونیورسٹی میں۔۔ مصروفیات۔۔۔ مطلب۔۔ زری حیرانگی سے زویا کی طرف دیکھنے لگی۔ بڑے میسجز چل رہے ہیں نا۔۔۔ زویا نے طنزیہ کہا۔۔ زری کا تو دماغ بھک سے اڑ گیا۔۔ یا اللّه‎‎۔۔ زری کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اب وہ کیا کہے اپنی صفائی میں ۔ وہ کلاس فیلو نے کچھ لیکچر کا بولا تھا اور سٹڈی سے متعلق پوچھا تھا میں وہی بتایا۔۔ اچھا اااااااااا۔۔۔ مجھے تو کہیں کوئی سٹڈی سے متعلق بات نظر نہیں آئی۔۔ زویا نے سٹڈی پہ زور دے کر کہا۔ وہ۔۔ تو بس جنرل باتیں تھی۔۔ زویا ایسا کچھ نہیں ہے جیسا تم سوچ رہی۔۔ زری اب رو رہی تھی۔۔ تم نے یہ سب کرنا تھا کیا یونیورسٹی میں۔۔ زویا نے اب کسر نکالنا تھی۔ زویا پلیز۔۔ تم نے یہی سب کرنا تو میں پاپا کو ابھی بتا دیتی ہوں۔۔ کہ یہ یونیورسٹی میں یہ سب کرتی پھر رہی ہے۔ زویا ۔۔۔ پلیز انہیں مت بتانا ایسا اب دوبارہ نہیں ہوگا۔۔ زری منتیں کر رہی تھی اسکی۔ لگتا کیا ہے وہ تمہارا۔۔ زویا نے انتہا کردی۔ زری یہ لفظ سن کر بلکل سُن ہوگئ۔۔ یعنی اسکا اب کردار بھی مشکوک ہوچکا تھا۔ زویا آئندہ ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔۔ یہ میرے جڑے ہاتھ دیکھو ۔۔ میں وعدہ کرتی ہوں۔۔ میں کسی سے اب بات نہیں کروں گی۔۔ کوئی دوست نہیں رکھوں گی یونیورسٹی۔۔ سب سے دور رہوں گی۔۔ بس تم گھر میں کسی سے کچھ مت کہنا۔۔ زویا نے اسکے آخری لفظ بمشکل سنے اور روم سے باہر چلی گئی۔ اور زری رونے کے علاوہ اب کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ 🍁🍁🍁🌹🌹🌹🌹🌹🍁🍁🍁🍁🍁🌹🌹🌹 زری۔۔۔ اسجد کا میسنجر پر میسج دیکھ کر وہ حیران ہوئ کیونکہ ہمیشہ وہی اسے میسج کرتی تھی۔ جی۔۔ آپ اس وقت۔ ۔۔ اسجد:۔ تم کیا کررہی ہو اتنی رات میں۔ میں۔۔۔ اسائنمنٹ بنا رہی ہوں ۔۔ صبح دینی ہے۔۔ بس ایک بجے تک بن جائے گی تو سو جاؤں گی۔ اسجد:۔ ارے۔ چھوڑو اسائنمنٹ۔۔ اس ٹائم نہیں بناتے۔۔ میرے سے باتیں کرو۔۔ ہاہا۔۔ ابھی بناؤں گی تو صبح دونگی۔۔ اپ سے بھی بات کرلیتی ہوں ساتھ میں۔ اسجد:۔ چھوڑ دو نا یار۔۔ یہ وقت اسائنمنٹ بنانے کا نہیں ہوتا۔۔ یہ وقت تو بہت ایمپورٹنٹ ہوتا ہے۔ 😉 مطلب۔۔ میں سمجھی نہیں آپکی بات۔ زری اب حیران پریشان بیٹھی تھی۔ اسجد:۔ اچھا سنو۔۔ اپنی پک تو دو۔۔ میں بھی تو دیکھو میری دوست دِکھنے میں کیسی ہے۔۔ یہ آپکو آج اچانک سے کیا ہوگیا۔ اپنے پہلے تو کبھی ایسا نہیں کہا۔ اسجد:۔ ارےےےےےے یااررررر ایک تو تم بھی بال کی کھال اتارنے لگ جاتی ہو۔۔ کہا نہ میرا دل کررہا تمہیں دیکھنے کو۔۔ بھیج دو نا پلیز۔ میری پیاری دوست۔
نہیں۔۔ میں آپکو اپنی پِک نہیں دے سکتی۔ اسجد:۔ یعنی ابھی تک تم میرے ہر اعتبار نہیں کرتی۔ نہیں اسجد خان ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ مگر میں نہیں دے سکتی۔۔ مجھے ٹھیک نہیں لگتا ایسے پک دو آپکو۔ اسجد :۔ ٹھیک ہے😞 آپ پلیز ناراض نہ ہوں۔۔ میرے پاس سچ میں اپنی کوئی پک نہیں ہے میں نے کبھی نہیں بنائی۔۔ اسجد:۔ ٹھیک ہے۔ پِک نہیں دے سکتی تو کچھ اور تو دے سکتی ہو نہ۔۔ 😉😉 کیا۔۔ کیا چاہیے آپ کو؟؟۔۔ اسجد:۔ کسِ زری یہ لفظ پڑھ کر ایک بار سناٹے میں آگئی۔۔ ممم مجھے لگتا یہ۔۔ یہ اسجد خان نہیں ہیں۔۔ یہ وہ ہو ہی نہیں سکتے۔۔ وہ مسلسل اپنے آنسوؤں کو پی رہی تھی۔۔ انہوں نے بتایا تھا کہ انکے ایک دوست انکی غیر موجودگی میں انکی آئ ڈی کھول لیا کرتے ہیں۔۔ کون ہیں آپ۔۔ بتائیں مجھے۔۔۔ آپ اسجد خان ہرگز نہیں ہوسکتے۔۔ وہ ایسی باتیں ہرگز نہیں کرتے۔۔زری نے آنسوؤں کے ساتھ ٹیکسٹ ٹائپ کیا۔۔ اسجد:۔ یار۔۔۔ میں ہی ہوں۔۔ دو نا پلیز ۔۔۔ اسجد خان پلیز۔۔ ایسے نہ کریں۔۔ اگر آپ خود ہیں۔۔ تو ۔۔۔ خدا کا واسطہ۔۔ پلیز ایسا نہیں کریں۔ اسجد:۔ اچھا ٹھیک ہے جاو۔۔ اب میسج مت کرنا مجھے۔۔ زری نے فوراً سے موبائل آف کردیا اور بے اختیار رو پڑی۔۔ 🍁🌹🌹🌹🍁🍁🌹🌹🌹🍁🍁🌹🌹🌹🌹🍁🍁 زری کا دماغ بلکل ماؤف ہو چکا تھا۔۔ اگلا دن اسکا بلکل بے دھیانی اور بے دلی سے گزرا۔ اسے ابھی بھی اس سب پہ یقین نہیں آرہا تھا۔۔ وہ ایسے نہیں ہیں۔۔ وہ تو اللّه‎‎ پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں۔۔ وہ غلط کیسے کر سکتے ہیں۔۔اسجد خان آپ میرے ساتھ ایسا سلوک نہیں کر سکتے۔ وہ مسلسل سوچ رہی تھی اور جتنا سوچ رہی تھی اتنا ہی اسکا دماغ الٹ رہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر سے اسجد کو میسج کردیا۔۔ کیسے ہیں آپ؟ اسجد کا اسے کچھ دیر بعد میسج آیا۔۔ اسجد:۔ ٹھیک وہ پھر سے سب بھلا کر اس سے باتیں کر رہی تھی وہ بس ہاں۔۔ جی۔۔جی کر ہا تھا اور یہ بات زری کو کافی محسوس ہورہی تھی۔ کیا ہوا آپ کو۔۔؟؟ اسجد:۔ میں نے کچھ کہا تھا۔ مجھے یاد نہیں۔۔۔ زری کا دل بہت تیز دھڑکنے لگا۔۔ اسجد نے ایموجی😘 بھیج دیا۔۔ مطلب وہ ابھی بھی اپنی ڈیمانڈ پہ قائم تھا۔ اسجد خان میں نے آپ کو ہمیشہ ایک بڑے بھائی کی حثیت دی ہے۔ ایک بھائی اگر مانگ رہا تو اس بہن کی پیشانی ہمیشہ حاظر رہے گی۔ اسجد۔۔ اوےےےے۔۔۔ نہیں ہوں میں تیرا کوئی بھائی وائی۔۔ میرا دماغ نہ خراب کر۔۔ اور جا یہاں سے۔۔ اب میسج نہ کرنا مجھے۔۔ زری کو اسنے سرے سے بلاک ہی کردیا۔۔ اسجد کے اس رویے نے زری کو بلکل توڑ کر رکھ دیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی ایک مرد جو اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد تھا اس کا اعتبار اس طرح سے توڑ سکتا۔۔ وہ مسلسل رو رہی تھی۔ وہ کسی سے بھی کوئی بات نہیں کر رہی تھی۔۔ بس خاموش ہوگئی تھی۔

   0
0 Comments